Search
Close this search box.

صحافت کا عالمی دن اور پاکستان میں صحافت

Share on Facebook
Share on Twitter
صحافت کا عالمی دن اور پاکستان میں صحافت

اکتوبر 2010 میں وکلا ایوان عدل میں اپنے ساتھی وکلا کی گرفتاری کو بنیاد بنا کر سراپا احتجاج تھے۔ اسی اثنا میں میڈیا ٹیمیں بھی وہاں پہنچیں اور رپورٹنگ کا آغاز کیا۔
دوران رپورٹنگ جیو نیوز کے سینئیر رپورٹر احمد فراز وکلا کی جانب سے زد و کوب ہوئے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ وکلا کا منفی چہرہ دکھا رہے ہیں۔

احمد فراز کا کہنا ہے کہ انہیں مارا پیٹا گیا اور ان کی تضحیک کی گئی۔ ان کا بتانا ہے کہ 2010 میں یہ واقع پیش آیا تھا۔ اس واقع کو گزرے نو برس ہو گئے ہیں لیکن تاحال کیس سرد خانے کی نذر ہے ۔

دنیا بھر میں آج یوم آزادی صحافت منایا جا رہا ہے ۔ اس دن کو منانے کا مقصد کسی دباؤ کے بغیر آزاد اور ذمہ دارانہ اطلاعات عوام تک پہنچانا ہے۔ آزادی صحافت کا آغاز 1991سے نمیبیا سے شروع ہوا۔ 29 سال سے آزادی یوم صحافت منایا جا رہا ہے لیکن آج بھی صحافی کو خطرات لاحق ہیں۔

اکتوبر 2010 میں بھی لاہور میں ایسا شرمناک واقعہ پیش آیا۔ جس مین صحافیوں پر تشدد کیا گیا۔ کیمرہ توڑ دیا گیا، تضحیک آمیز جملے کسے گئے.اسی تناظر میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے احمد فراز نے بتایا کہ بد ترین تشدد اور گالم گلوچ کے بعد میں اب بھی صحافی ہوں اور اپنا کام دل جمعی کے ساتھ سر انجام دیتا رہوں گا۔

انہوں نے بتایا تشدد کا مقدمہ ایف آئی آر نمبر 10/1035 کے تحت دو اکتوبر 2010 کو تھانہ اسلام پورہ لاہور میں درج کیا گیا۔ مقدمے میں 392، 506، 337 سمیت 148 اور 149 کی دفعات شامل کی گئیں۔ مقدمہ تھانہ اسلام پورہ کے ایس آئی مختار احمد نے درج کیا۔

انہوں نے بتایا کہ کیس نو سال سے عدالت میں ہے لیکن اس پر سماعت نہیں ہوتی لہذا کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ احمد فراز کا بتانا ہے کہ کام میں مصروفیت کے باعث انہیں عدالت جانے کے لئے کافی پریشانی کا سامنا رہا۔ انہوں نے بتایا انہیں کسی قسم کی دھمکی نہیں دی گئی لیکن اس وقت کے بار کے صدر ساجد بشیر نے فون پر بات کرتے ہوئے ان سے کہا کہ جھگڑنے والے وکلا سے صلح صفائی کر لیں یہ ہمارے دوست ہیں۔ انہوں نے بتایا بار کا صدر ہونے کی وجہ سے ساجد بشیر نے انہیں صلح کی پیش کش کی تھی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ تشدد کے بعد ان کا مورال کم ہوا لیکن جلد ہی اس حالت پر انہوں نے قابو پا لیا۔ کیس کے متعلق انہوں نے بتایا کہ اب فریقین کی جانب سے کیس ختم کر دیا گیا ہے۔

رپورٹرز ساں فرنٹئرز(آر ایس ایف) کی جانب سے بنائی جانے والی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2017 کی 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان 139 ویں نمبر پر ہے۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ پی پی ایف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2002 سے 2019 تک یعنی گزشتہ 17 برسوں میں 48 صحافیوں کو ٹارگٹ کرکے جبکہ 24 کو کام کے دوران قتل کیا گیا، 171 کو شدید جبکہ 77 کو معمولی زخمی کیا گیا، 26 صحافیوں کو اغوا جبکہ 26کو حراست میں لیا گیا۔ 32 میڈیا ہاؤسز پر حملہ کیا گیا۔ 30 لوگوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔ 2002 سے لیکر 2019 تک ٹوٹل 699 تشدد کے واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ ان صحافیوں کے قاتل ابھی تک قانون کی گرفت سے باہر ہیں اور آزاد پھر رہے ہیں۔

دوسری جانب اس حوالے سے احمد فراز کے بھائی سرفراز نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے بعد سارا خاندان سہم گیا تھا۔ بچے ڈرے ہوئے تھے اور اپنے والد سے گھر سے باہر نہ نکلنے کا مطالبہ کرتے تھے۔

اسی واقعے میں زخمی ہونے والے روزنامہ جنگ سے منسلک صحافی شیراز نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو اس لئے زد و کوب کیا گیا کیونکہ انہوں نے آئینہ دکھایا۔ انہوں نے بتایا پاکستان میں صحافی ایک ہی صورت میں محفوظ رہ سکتا ہے اگر وہ سچ دیکھانے پر سمجھوتہ کر لے۔ مبادہ صحافی کو چاروں اطراف سے خطرات کا ہی سامنا ہے.

ان کے بیٹے کا بتانا تھا کہ ہم ان کو تلقین کرتے ہیں کہ ایسے حالات سے بچنے کی کوشش کیا کریں۔ رپورٹنگ کرتے ہوئے اس طرح کے اشتعال پھیلانے والوں سے دور رہا کریں۔

ہائی کورٹ کے سینئیر وکیل عمران قیصر بٹر کا ہمیں بتانا ہے کہ صحافی اور وکلا کی اخلاقی تربیت ہونی چاہئیے۔ انہوں نے کہا حادثہ اچانک ہوتا ہے جس کی وجہ سے جذبات نمایاں ہوتے ہیں۔ ان کے بقول تشدد کا نشانہ بننے والے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب وہ عدالت سے رجوع کرتے ہیں تو ان کو کوئی وکیل ہی نہیں ملتا۔ وکیل ملنے کی صورت ڈر کے مارے وہ عدالت نہیں جا پاتے۔ یعنی ہر صورت میں صحافی کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کیمرہ مین حنان کا کہنا ہے کہ انہیں متعدد بار فرائض سر انجام دیتے ہوئے اس طرح کی کشیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے بتایا ان کا 50 ہزار مالیت کا کیمرہ بھی توڑا گیا جس کا ازالہ ابھی تک نہیں ہو سکا۔ نقصان کے ازالے کے لئے انہوں نے ایف آئی آر 10/1035 درج کروائی۔

دنیا میڈیا گروپ کے ایڈیٹوریل بورڈ سے منسلک سینئیر ایڈیٹر کاظم جعفری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ تین چار عشروں میں میڈیا انڈسٹری نے خوب ترقی کی ہے‘ لیکن بد قسمتی سے میڈیا ورکرز ترقی معکوس کی جناب گامزن ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں کا ایک ایسا طبقہ ہے جو یا تو بہت معمولی مشاہرے پر کام کرتے رہے ہیں یا بغیر کسی معاوضے کے، علاوہ ازیں ان دنوں کار زار صحافت میں ورکرز کے تحفظ کی طرف بھی میڈیا مالکان کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

پی پی ایف کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں کے قتل میں ملوث صرف پانچ افراد کو سزا دی جا سکی ہے۔ جن میں سے دو صحافیوں کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہے۔ ایوب خان خٹک کے قاتل کو عمر قید اور 0.5 ملین روپے جرمانے کی سزا جبکہ ولی خان بابر کیس میں ملزم کو سزائے موت سنائی گئی۔ تاہم سزا کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

پی ایف یو جے کے صدر رانا محمد عظیم کا کہنا ہے کہ 10 اکتوبر 2010 کے واقعے کے بعد ہم نے سخت رد عمل دیتے ہوئے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا۔ بعد ازاں بار کونسل کے عہدیداران نے وفد کی شکل میں ہم سے ملاقات کی۔ تاہم اس معاملے کو وقتی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا آمر کے دور میں زیادہ آزاد تھا بہ نسبت موجودہ جمہوری دور کے۔

لاہور پریس کلب کے قائم مقام صدر ذوالفقار مہتو کا کہنا ہے کہ پریس کلب کی جانب سے ہمیشہ ایسے فعل کی مذمت کی گئی ہے جو آزادی صحافت میں رکاوٹ بنا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس واقعے کی مذمت کی اور مقدمے کے اندراج تک سراپا احتجاج رہے۔

عرب نیوز سے منسلک ڈاکٹر رضوان صفدر کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک یا بالخصوص ایسے ممالک جہاں پر سکیورٹی اداروں کا عمل دخل ذیادہ ہے وہاں صحافی محفوظ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سچ بات کرنے والوں کے تحفظ کا بند و بست کرے۔ مگر جب ریاست ہی ان عوامل میں شامل ہوگی تو معاملات الجھتے ہی ہیں۔

صوبائی وزیر اطلا عات و نشریات صمصام بخاری کا دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ہم دو بڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ اول: ہم میڈیا ہاؤسز کے ساتھ مل کر صحافیوں کے تحفظ پر کام کریں گے، دوم ہم صحافیوں کی تربیت کروائیں گے کہ اگر انہیں کسی کشیدہ ماحول میں رپورٹنگ کرنی پڑے تو انہیں پتا ہو کے اپنے آپ کو کیسے تحفظ دینا ہے۔ صوبائی وزیر اطلا عات و نشریات نے کہا کہ اس کے علاوہ اور بھی منصوبے ہیں لیکن ان کے بارے میں ابھی نہیں بتایا جا سکتا۔

Dunya