Search
Close this search box.

بارہ سال بعد بھی صحافی جان اللہ ہاشم زادہ کو انصاف نہیں مل سکا

Share on Facebook
Share on Twitter

بارہ سال قبل 24 اگست 2009 کو افغانستان کے شمشاد ٹیلی ویژن کے لیے پشاور میں مقیم بیورو چیف جان اللہ ہاشم زادہ کو پاکستان کے شمال مغربی ضلع خیبر میں جمرود کے قریب منی بس پر افغانستان سے واپس جاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

 پشاور پریس کلب کے اس وقت کے صدر شمین شاہد نے کہا تھا کہ یہ واقعہ “خالصتا ٹارگٹ کلنگ” ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہاشم زادہ طالبان پر بہت تنقید کرتے تھے اور ان کی کچھ رپورٹنگ پاکستان اور افغان حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کے لیے ناقابل قبول تھی۔ ان کے پاس عسکریت پسندوں، طالبان اور خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے بہت زیادہ معلومات تھیں”۔

گزشتہ ماہ پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) سے بات کرتے ہوئے شاہد نے کہا کہ ہاشم زادہ نے انہیں کئی بار بتایا تھا کہ انہیں کالز کے ذریعے دھمکیاں موصول ہوئی ہیں اور کچھ نامعلوم افراد ان کا پیچھا بھی کرتے تھے۔ شاہد کے مطابق مقتول صحافی کا جب لوگ پیچھا کر رہے تھےتو وہ کئی مرتبہ پریس کلب آئےاور وہاں چھپ گئے۔

دریں اثنا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر شہزادہ ذوالفقار نے کہا ہے کہ ابھی تک اس کیس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک پولیس اور دیگر سیکورٹی ادارے اپنی تفتیش مکمل نہیں کر لیتے اس وقت تک کوئی بھی قتل کے محرکات کی تصدیق نہیں کر سکتا، انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اس کیس کے حوالے سے کوئی اپ ڈیٹس نہیں ہیں۔

24 اگست 2009 کو تین نقاب پوش افراد نے منی بس پر پستول سے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ہاشم زادہ فوری طور پر ہلاک ہوئے اور اس کے ساتھی علی خان زخمی ہو گئے تھے۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق اس کے بعد اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ جمرود ریحان خٹک نے کہا تھا کہ ہاشم زادہ کوچ کے ذریعے طورخم سے پشاور جا رہے تھے اور “ایک کار میں چار نقاب پوش افراد” نے کوچ کو رکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہاشم زادہ کو “قریب سے گولی ماری گئی تھی”۔ان کے ساتھی علی خان زخمی ہو گئے۔

ہاشم زادہ نے افغان انڈیپینڈنٹ نیوز ایجنسی پجھواک اور پشتون اخبارات وحدات اور سحر سمیت متعدد افغان اور پاکستانی نیوز میڈیا کے لیے کام کیا۔دوستوں کے مطابق وہ حساس معاملات کو کور کرتے تھے اور اپنی موت سے تین ہفتے پہلے سے ہی انہیں دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ وہ اپنا صحافتی کام ترک کر دے اور پشاور چھوڑ دے۔