Search
Close this search box.

ایک صحافی کا قتل خون بہا سے طے پایا گیا، شاہد سومرو کی یاد میں

Share on Facebook
Share on Twitter

پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے روزنامہ کاوش کے صحافی شاہد سومرو کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ جنہیں 20 اکتوبر 2002 کو ان کے گھر کے سامنے قتل کیا گیا تھا۔ سومرو کے مقدمے کے ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تاہم دونوں فریقین کے درمیان معاملہ طے پاگیا۔ سومرو کے اہل خانہ نے 1.6 ملین روپے کی ادائیگی کے بعد مقدمہ واپس لے لیا۔

جیسا کہ ہم سومرو کی برسی کے موقع پر ان کے کام کو یاد کررہے ہیں، ان کا مقدمہ ایک ایسے رجحان کو بھی اجاگر کرتا ہے جو اکثر اس وقت دیکھا جاتا ہے جب پاکستان میں کسی صحافی کو قتل کیا جاتا ہے یعنی کسی مقدمے کو ختم کرنے کے لئے خون بہا کی ادائیگی۔ اگرچہ ممکنہ سیکورٹی خدشات اور مالی دباؤ کی وجہ سے متاثرہ خاندان کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہوسکتا ہے، یہ رجحان قتل ہونے والے صحافیوں کے اہل خانہ کی قانونی حمایت نہ ہونے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ اگرچہ موثر اداروں، سخت کارروائی اور معاونت کی موجودگی میں خاندانوں کو خون بہا قبول کرنے کی ضرورت نہیں۔

اکتوبر 20، 2002 کو کندھ کوٹ  قصبے میں 26 سالہ نمائندہ سومرو کو اس کے گھر کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ آدھی رات کے قریب اس کے پیٹ میں گولی ماری گئی، جب اس نے پانچ افراد کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی جو اسے اغوا کرنا چاہتے تھے۔

حال ہی میں ختم ہونے والی انتخابی مہم کے دوران ان کی رپورٹنگ کا بدلہ لینے کے لئے انہیں مبینہ طور پر قتل کردیا گیا تھا۔

سومرو کے ساتھیوں کے مطابق ان کی رپورٹنگ نے کندھ کوٹ سے حال ہی میں منتخب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی، میر محمود بجرانی کو ناراض کر دیا تھا۔ ساتھیوں نے بتایا کہ سومرو کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی تھیں۔

 تفصیلات کے مطابق نومنتخب ایم پی اے بجرانی کے دونوں بھائی وحید علی بجرانی اور محمد علی بجرانی اور ان کے تین ساتھی آدھی رات کو سومرو کے گھر پہنچے اور انہیں اپنے گھر سے باہر آنے کا کہا۔ جب وہ باہر آئے تو حملہ آوروں نے انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی۔جب سومرو نے مزاحمت کی تو انہوں نے اسے کلاشنکوف اور ٹی ٹی پستول سے گولی مار دی اور پھر ایک کار میں فرار ہوگئے۔

سومرو کو تشویشناک حالت میں اسپتال لے جایا گیا لیکن اسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی انکا انتقال ہوگیا۔

کندھ کوٹ پولیس اسٹیشن کے ہیڈ محرر امداد چانڈیو کے مطابق پولیس نے مجرموں کو گرفتار کرکے سیشن عدالت میں پیش کیا تھا۔ تاہم دونوں فریقین کے درمیان معاملہ طے پاگیا اور متاثرہ خاندان نے 1.6 ملین روپے وصول کرنے کے بعد مقدمہ واپس لے لیا۔

سومرو کے کزن سعود عالم سومرو نے بتایا کہ  شاہد کے اہل خانہ نے مالی معاوضے پر معاملہ طے کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے کے بااثر افراد نے تجویز دی تھی کہ اس معاملے کو جرگہ کے ذریعے حل کیا جائے۔ 28 اکتوبر 2003 کو ایک جرگے نے سومرو کی بیوہ اور پانچ بچوں کو 1.65 ملین روپے ہرجانہ ادا کیا۔

لاڑکانہ پریس کلب کے صدر ظفر علی نے پی پی ایف کو بتایا کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ خون بہا کی رسم کی وجہ سے صحافیوں کا خون رائیگاں جاتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ قتل ہونے والے صحافیوں کے اہل خانہ بااثر افراد کے دباؤ کی وجہ سے خون بہا قبول کرتے ہیں، اگر وہ خون بہا کو مسترد کرتے ہیں تو ان کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔